کس سے وفا کی ہے امید کون وفا شعار ہے
اے مرے بے قرار دل کس لیے بے قرار ہے
سن تو رہے ہیں دیر سے شور بہت بہار کا
جانے کہاں کھلے ہیں پھول جانے کہاں بہار ہے
کیوں نہ ترے خیال میں زمزمہ خواں گزر چلیں
یوں بھی ہماری راہ میں گردش روزگار ہے
رات سے ہم نہیں اداس رات اداس ہی سہی
رات تو صبح کے لیے وقفۂ انتظار ہے
اب بھی مذاق درد سے میری شبوں میں ہے گداز
میرے لبوں پہ آج بھی نغمۂ حسن یار ہے

غزل
کس سے وفا کی ہے امید کون وفا شعار ہے
فرید جاوید