EN हिंदी
کس سے وفا کی ہے امید کون وفا شعار ہے | شیح شیری
kis se wafa ki hai umid kaun wafa-shiar hai

غزل

کس سے وفا کی ہے امید کون وفا شعار ہے

فرید جاوید

;

کس سے وفا کی ہے امید کون وفا شعار ہے
اے مرے بے قرار دل کس لیے بے قرار ہے

سن تو رہے ہیں دیر سے شور بہت بہار کا
جانے کہاں کھلے ہیں پھول جانے کہاں بہار ہے

کیوں نہ ترے خیال میں زمزمہ خواں گزر چلیں
یوں بھی ہماری راہ میں گردش روزگار ہے

رات سے ہم نہیں اداس رات اداس ہی سہی
رات تو صبح کے لیے وقفۂ انتظار ہے

اب بھی مذاق درد سے میری شبوں میں ہے گداز
میرے لبوں پہ آج بھی نغمۂ حسن یار ہے