کس سے آزردہ مرے قاتل کا خنجر ہو گیا
کیا ہوا جو آج یوں جامے سے باہر ہو گیا
میرا شہرہ آج اک عالم میں گھر گھر ہو گیا
تیرے ہاتھوں مجھ کو قاتل یہ میسر ہو گیا
کیوں نہیں ملتا ابھی تک تشنہ لب ہیں بادہ خوار
کیا ترا ساغر بھی ساقی جام کوثر ہو گیا
اس قدر وحشت بھی اے دست جنوں کس کام کی
تیرے ہاتھوں میرا جینا بھی تو دوبھر ہو گیا
جوش وحشت کا ارادہ تھا کہ عریاں ہی رہے
بارے مر کر اک کفن مجھ کو میسر ہو گیا
اس کی رسوائی کا بھی آیا نہ تجھ کو کچھ خیال
کس قدر بے باک تو اے دیدۂ تر ہو گیا
مژدہ اے گنج شہیداں تیرے بھی دن پھر گئے
آج دل برداشتہ دنیا سے جوہرؔ ہو گیا
غزل
کس سے آزردہ مرے قاتل کا خنجر ہو گیا
محمد علی جوہرؔ