کس سمت جا رہا ہے زمانہ کہا نہ جائے
اکتا گئے ہیں لوگ فسانہ کہا نہ جائے
اپنا مکاں اجاڑ کے صحراؤں کی طرف
وہ شخص کیوں ہوا ہے روانہ کہا نہ جائے
لمحوں کی طرح گزری ہیں صدیاں تو بارہا
اک پل بنا ہے کیسے زمانہ کہا نہ جائے
شعلے بنے ہیں لفظ تو کانٹا ہوئی زباں
اب کیا کریں جو تیرا فسانہ کہا نہ جائے
ہے آنکھ افق پہ برف کی صورت جمی ہوئی
شب ہوگی کب سحر کا نشانہ کہا نہ جائے
کہنے کو یہ غزل ہے مگر کیا غزل جسے
نوحہ کہا نہ جائے ترانہ کہا نہ جائے
غزل
کس سمت جا رہا ہے زمانہ کہا نہ جائے
مظہر امام