کس سادگی سے چھوڑ دیا ہے بہاؤ پر
حالاں کہ ہم سوار ہیں کاغذ کی ناؤ پر
ہم کھلکھلا کے ہنستے ہیں ہر تازہ گھاؤ پر
کچھ لوگ معترض ہیں اسی رکھ رکھاؤ پر
یہ آگ بھی انہیں کی لگائی ہوئی تو ہے
جو لوگ ہاتھ تاپ رہے ہیں الاؤ پر
شہر سخن کا طرز تجارت عجیب ہے
بکتے ہیں فکر و فن بھی تو مٹی کے بھاؤ پر
رہزن ہیں اہل قافلہ ہیں اور گرد راہ
رہبر کو چھوڑ آئے ہیں پچھلے پڑاؤ پر
ہم بیکسوں پہ اتنا مناسب نہیں ہے ظلم
چینٹا بھی کاٹ لیتا ہے اکثر دباؤ پر
ممکن نہیں ہے عشق کی بازی کو ہار جائیں
دل جیسی چیز ہم نے لگائی ہے داؤ پر
وہ شخص زندگی کی بلندی نہ چھو سکا
وہ جس کا سانس پھول گیا ہو چڑھاؤ پر
عشرتؔ خلوص و مہر و وفا دوستی کی لاج
بکتی ہیں ساری چیزیں یہاں ایک بھاؤ پر
غزل
کس سادگی سے چھوڑ دیا ہے بہاؤ پر
عشرت کرتپوری