کس قدر مسئلۂ شام و سحر بدلا ہے
جب ذرا زاویۂ فکر و نظر بدلا ہے
سمت منزل کا تعین نہیں دو گام کی بات
کتنے موڑ آئے ہیں جب طرز سفر بدلا ہے
اپنی آواز پہ ہم چونک اٹھے ہیں خود بھی
اک ذرا لہجۂ احساس اگر بدلا ہے
دشت میں بھی کبھی اس طرح نہ جی لگتا تھا
اب کے دیوانگی بدلی ہے کہ گھر بدلا ہے
آ گیا ہے رسن و دار کے معمول میں فرق
جب کبھی ضابطۂ گردن و سر بدلا ہے
اب وہ یک رنگیٔ ماحول کی تلخی تو نہیں
ہم نے مے بدلی نہ ہو جام مگر بدلا ہے
انقلاب آیا ہے اس طرح بھی گھر میں اکثر
در سے دیوار نہ دیوار سے در بدلا ہے

غزل
کس قدر مسئلۂ شام و سحر بدلا ہے
اعزاز افصل