کس قدر محدود کر دیتا ہے غم انسان کو
ختم کر دیتا ہے ہر امید ہر امکان کو
گیت گاتا بھی نہیں گھر کو سجاتا بھی نہیں
اور بدلتا بھی نہیں وہ ساز کو سامان کو
اتنے برسوں کی ریاضت سے جو قائم ہو سکا
آپ سے خطرہ بہت ہے میرے اس ایمان کو
کوئی رکتا ہی نہیں اس کی تسلی کے لیے
دیکھتا رہتا ہے دل ہر اجنبی مہمان کو
اب تو یہ شاید کسی بھی کام آ سکتا نہیں
آپ ہی لے جائیے میرے دل نادان کو
شہر والوں کو تو جیسے کچھ پتا چلتا نہیں
روکتا رہتا ہے ساحل روز و شب طوفان کو
غزل
کس قدر محدود کر دیتا ہے غم انسان کو
ذیشان ساحل