EN हिंदी
کس قدر محدود کر دیتا ہے غم انسان کو | شیح شیری
kis qadar mahdud kar deta hai gham insan ko

غزل

کس قدر محدود کر دیتا ہے غم انسان کو

ذیشان ساحل

;

کس قدر محدود کر دیتا ہے غم انسان کو
ختم کر دیتا ہے ہر امید ہر امکان کو

گیت گاتا بھی نہیں گھر کو سجاتا بھی نہیں
اور بدلتا بھی نہیں وہ ساز کو سامان کو

اتنے برسوں کی ریاضت سے جو قائم ہو سکا
آپ سے خطرہ بہت ہے میرے اس ایمان کو

کوئی رکتا ہی نہیں اس کی تسلی کے لیے
دیکھتا رہتا ہے دل ہر اجنبی مہمان کو

اب تو یہ شاید کسی بھی کام آ سکتا نہیں
آپ ہی لے جائیے میرے دل نادان کو

شہر والوں کو تو جیسے کچھ پتا چلتا نہیں
روکتا رہتا ہے ساحل روز و شب طوفان کو