کس قدر اجنبی ہے نظر اب تری
دیکھ کر بھی جو شاید نہیں دیکھتی
زلف رخ پر ترے جو مچلتی رہی
کچھ اجالے اندھیرے رہی بانٹتی
کیا ترے لمس سے آج محروم ہے
چل رہی ہے صبا آج بہکی ہوئی
تھی سراپا قیامت مرے سامنے
یاد ہے یاد ہے وہ گھڑی
ایک لمبے سفر کی تھکن کو لیے
مسکراتی رہی رات بھر چاندنی

غزل
کس قدر اجنبی ہے نظر اب تری
کرشن مراری