EN हिंदी
کس قدر اجنبی ہے نظر اب تری | شیح شیری
kis qadar ajnabi hai nazar ab teri

غزل

کس قدر اجنبی ہے نظر اب تری

کرشن مراری

;

کس قدر اجنبی ہے نظر اب تری
دیکھ کر بھی جو شاید نہیں دیکھتی

زلف رخ پر ترے جو مچلتی رہی
کچھ اجالے اندھیرے رہی بانٹتی

کیا ترے لمس سے آج محروم ہے
چل رہی ہے صبا آج بہکی ہوئی

تھی سراپا قیامت مرے سامنے
یاد ہے یاد ہے وہ گھڑی

ایک لمبے سفر کی تھکن کو لیے
مسکراتی رہی رات بھر چاندنی