کس نے دی مجھ کو صدا کون و مکاں کے اس طرف
منتظر ہے کون میرا آسماں کے اس طرف
جانے کب دونوں ملیں آپس میں سایوں کی طرح
دو مسافر چل رہے ہیں کہکشاں کے اس طرف
طے کیا میں نے سفر جلدی کہ میں جلدی میں تھا
رہ گیا سایہ مرا دونوں جہاں کے اس طرف
اک نہ اک سر پر رہے گا جتنا میں اونچا گیا
آسماں کچھ اور بھی ہیں آسماں کے اس طرف
پار اتروں گا تو وہ مجھ کو اٹھا لے جائے گا
ایک صحرا خشک بحر بیکراں کے اس طرف
کوئی سرگوشی نما آواز بھی آتی نہیں
کتنی گہری خامشی ہے لا مکاں کے اس طرف
غزل
کس نے دی مجھ کو صدا کون و مکاں کے اس طرف
انجم نیازی