کس نئے خواب میں رہتا ہوں ڈبویا ہوا میں
ایک مدت ہوئی جاگا نہیں سویا ہوا میں
میری سورج سے ملاقات بھی ہو سکتی ہے
سوکھنے ڈال دیا جاؤں جو دھویا ہوا میں
مجھے باہر نہیں سامان کے اندر ڈھونڈو
مل بھی سکتا ہوں کسی شے میں سمویا ہوا میں
بازیابی کی توقع ہی کسی کو نہیں اب
اپنی دنیا میں ہوں اس طرح سے کھویا ہوا میں
شام کی آخری آہٹ پہ دہلتا ہوا دل
صبح کی پہلی ہواؤں میں بھگویا ہوا میں
آسماں پر کوئی کونپل سا نکل آؤں گا
سالہا سال سے اس خاک میں بویا ہوا میں
کبھی چاہوں بھی تو اب جا بھی کہاں سکتا ہوں
اس طرح سے ترے کانٹے میں پرویا ہوا میں
میرے کہنے کے لیے بات نئی تھی نہ کوئی
کہہ کے چپ ہوگئے سب لوگ تو گویا ہوا میں
مسکراتے ہوئے ملتا ہوں کسی سے جو ظفرؔ
صاف پہچان لیا جاتا ہوں رویا ہوا میں
غزل
کس نئے خواب میں رہتا ہوں ڈبویا ہوا میں
ظفر اقبال