کس مستی میں اب رہتا ہوں
خود کو خود میں ڈھونڈ رہا ہوں
دنیا میں سب سے ہی جدا ہوں
آخر میں کس دنیا کا ہوں
میں تو خود کو بھول چکا ہوں
تم بتلا دو کون ہوں کیا ہوں
یہ بھی نہیں ہے یاد مجھے اب
کیوں آخر روتا رہتا ہوں
اک دنیا ہے میرے اندر
اس میں ہی میں گھوم رہا ہوں
مجھ کو نیند ہے پیاری یا پھر
اس کو بھی میں ہی پیارا ہوں
وہ رخ اپنا پھیر چکے ہیں
میں کس کو اپنا کہتا ہوں
ان لفظوں نے منزل چھینی
آپ چلیں میں ابھی آتا ہوں
من تو خوشیاں بانٹ رہا ہے
میں قطرہ قطرہ روتا ہوں
خود کا بوجھ ہے کتنا خود پر
کتنا خود کو جھیل رہا ہوں
مجھ کو تم مہتابؔ نہ سمجھو
شاید میں اس کا سایا ہوں

غزل
کس مستی میں اب رہتا ہوں
بشیر مہتاب