EN हिंदी
کس مشقت سے مجھے جسم اٹھانا پڑا ہے | شیح شیری
kis mashaqqat se mujhe jism uThana paDa hai

غزل

کس مشقت سے مجھے جسم اٹھانا پڑا ہے

قاسم یعقوب

;

کس مشقت سے مجھے جسم اٹھانا پڑا ہے
شام ہوتے ہی ترے شہر سے جانا پڑا ہے

میں تجھے ہنستا ہوا دیکھ کے یہ بھول گیا
کہ مرے چاروں طرف روتا زمانہ پڑا ہے

جمع پونجی ہے مرے جسم میں کچھ آنسوؤں کی
یہ مرا دل تو نہیں ایک خزانہ پڑا ہے

دیر تک باغ کے کونے میں کوئی آیا نہیں
بات کرنے کے لیے خود کو بلانا پڑا ہے

دن نے دستک دی تو کوئی بھی نہیں جاگا تھا
آج سورج سے مجھے ہاتھ ملانا پڑا ہے

خالی جگہوں کی طرف کر کے اشارہ قاسمؔ
کیا بتاتے ہو یہاں میرا نشانہ پڑا ہے