EN हिंदी
کس لطف سے محفل میں بٹھائے گئے ہم لوگ | شیح شیری
kis lutf se mahfil mein biThae gae hum log

غزل

کس لطف سے محفل میں بٹھائے گئے ہم لوگ

سیف بجنوری

;

کس لطف سے محفل میں بٹھائے گئے ہم لوگ
کیا راز تھا خاطر میں جو لائے گئے ہم لوگ

شمعیں تری یادوں کی جلائے گئے ہم لوگ
اشکوں کے خزانے تھے لٹائے گئے ہم لوگ

سر نقش کف پا پہ جھکائے گئے ہم لوگ
یوں رسم وفا ان سے بنائے گئے ہم لوگ

غیروں نے مرتب کئے افسانے ستم کے
افسانوں کے عنوان بنائے گئے ہم لوگ

ہیں مورد الزام ہمیں تیری نظر میں
دنیا کی خطاؤں پہ ستائے گئے ہم لوگ

گو ہم نہ رہے رہ گیا افسانہ ہمارا
ماضی کی طرح ہو گئے آئے گئے ہم لوگ

ہم مٹ گئے دنیا سے تو سمجھی ہمیں دنیا
کھوئے گئے ہم لوگ تو پائے گئے ہم لوگ

اچھے رہے وہ لوگ جو بندے تھے ہوس کے
آداب محبت میں مٹائے گئے ہم لوگ

کچھ ایسے گرے سیفؔ نگاہوں سے ہم ان کی
جس بزم میں بھی پہنچے اٹھائے گئے ہم لوگ