کس لیے سب کو عجب بوجھ لگا سر اپنا
لے کے محفل میں جو پہنچا میں کٹا سر اپنا
ہاتھ لپکے تو بہت پہنچے نہ گردن تک بھی
نہ مگر اہل نظر تھے نہ جھکا سر اپنا
رسم پھر رسم ہے ٹھہرا ہے لہو ہی جو سہاگ
چمک اے تیغ ہوا لے یہ رہا سر اپنا
سب ہوا بھول گئی سرکشی و شہ زوری
اک ذرا دوش ہوا پر جو اڑا سر اپنا
ہم نے ٹھوکر بھی اگر کھائی تو گھر آ کر ہی
اپنی دہلیز ہی سے جا کے لگا سر اپنا
بس کہ اب دیکھنا ہے اپنے لہو سے رشتہ
خواب میں دیکھتا ہوں تن سے جدا سر اپنا
کم سے کم بھول گئے وار تو شمشیروں کو
تلخؔ جانے دو بھلا دو جو گیا سر اپنا
غزل
کس لیے سب کو عجب بوجھ لگا سر اپنا
منموہن تلخ