EN हिंदी
کس لیے سب کو عجب بوجھ لگا سر اپنا | شیح شیری
kis liye sab ko ajab bojh laga sar apna

غزل

کس لیے سب کو عجب بوجھ لگا سر اپنا

منموہن تلخ

;

کس لیے سب کو عجب بوجھ لگا سر اپنا
لے کے محفل میں جو پہنچا میں کٹا سر اپنا

ہاتھ لپکے تو بہت پہنچے نہ گردن تک بھی
نہ مگر اہل نظر تھے نہ جھکا سر اپنا

رسم پھر رسم ہے ٹھہرا ہے لہو ہی جو سہاگ
چمک اے تیغ ہوا لے یہ رہا سر اپنا

سب ہوا بھول گئی سرکشی و شہ زوری
اک ذرا دوش ہوا پر جو اڑا سر اپنا

ہم نے ٹھوکر بھی اگر کھائی تو گھر آ کر ہی
اپنی دہلیز ہی سے جا کے لگا سر اپنا

بس کہ اب دیکھنا ہے اپنے لہو سے رشتہ
خواب میں دیکھتا ہوں تن سے جدا سر اپنا

کم سے کم بھول گئے وار تو شمشیروں کو
تلخؔ جانے دو بھلا دو جو گیا سر اپنا