EN हिंदी
کس کس کو اب رونا ہوگا جانے کیا کیا بھول گیا | شیح شیری
kis kis ko ab rona hoga jaane kya kya bhul gaya

غزل

کس کس کو اب رونا ہوگا جانے کیا کیا بھول گیا

شاذ تمکنت

;

کس کس کو اب رونا ہوگا جانے کیا کیا بھول گیا
چشم و لب کا ذکر ہی کیا ہے میں تو سراپا بھول گیا

اس نے تو شاید باد صبا سے نامۂ خوشبو بھیجا تھا
اس کو خبر کیا مجھ کو چمن کا پتہ پتہ بھول گیا

شہر شب میں اپنی فقط اک نجم سحر سے یاری تھی
ہم کچھ ایسے سوئے وہ بھی رفتہ رفتہ بھول گیا

آبلہ پا ہوں آپ اپنے ہی نقش قدم سے ڈرتا ہوں
تنہا تنہا پھرتے پھرتے اپنا سایہ بھول گیا

شاذؔ سے پوچھو او سودائی کس کی دھن میں پھرتا ہے
کس کی باتیں یاد آتی ہیں کس کا چہرہ بھول گیا