کس کس کو اب رونا ہوگا جانے کیا کیا بھول گیا
چشم و لب کا ذکر ہی کیا ہے میں تو سراپا بھول گیا
اس نے تو شاید باد صبا سے نامۂ خوشبو بھیجا تھا
اس کو خبر کیا مجھ کو چمن کا پتہ پتہ بھول گیا
شہر شب میں اپنی فقط اک نجم سحر سے یاری تھی
ہم کچھ ایسے سوئے وہ بھی رفتہ رفتہ بھول گیا
آبلہ پا ہوں آپ اپنے ہی نقش قدم سے ڈرتا ہوں
تنہا تنہا پھرتے پھرتے اپنا سایہ بھول گیا
شاذؔ سے پوچھو او سودائی کس کی دھن میں پھرتا ہے
کس کی باتیں یاد آتی ہیں کس کا چہرہ بھول گیا
غزل
کس کس کو اب رونا ہوگا جانے کیا کیا بھول گیا
شاذ تمکنت