کس کی تحویل میں تھے کس کے حوالے ہوئے لوگ
چشم گریہ میں رہے دل سے نکالے ہوئے لوگ
کب سے راہوں میں تری گرد بنے بیٹھے ہیں
تجھ سے ملنے کے لیے وقت کو ٹالے ہوئے لوگ
کہیں آنکھوں سے چھلکنے نہیں دیتے تجھ کو
کیسے پھرتے ہیں ترے خواب سنبھالے ہوئے لوگ
دامن صبح میں گرتے ہوئے تاروں کی طرح
جل رہے ہیں تری قربت کے اجالے ہوئے لوگ
یا تجھے رکھتے ہیں یا پھر تری خواہش دل میں
ایسے دنیا میں کہاں چاہنے والے ہوئے لوگ
غزل
کس کی تحویل میں تھے کس کے حوالے ہوئے لوگ
سلیم کوثر