کس کی خلوت سے نکھر کر صبح دم آتی ہے دھوپ
کون وہ خوش بخت ہے جس کی ملاقاتی ہے دھوپ
دیدنی ہوتا ہے دو رنگوں کا اس دم امتزاج
بوندیوں کے ہم جلو ہم رقص جب آتی ہے دھوپ
تم تو پیارے چڑھتے سورج کے پرستاروں میں تھے
کیوں ہو شکوہ سنج اگر تن کو جلا جاتی ہے دھوپ
خوشبوۓ محبوس کو آزاد کرنے کے لیے
لاکھ ہو سنگیں حصار کہر در آتی ہے دھوپ
اس گلی میں جیسے اس کا داخلہ ممنوع ہو
یوں دبے پاؤں یہاں آ کر گزر جاتی ہے دھوپ
رات بھر پہلو میں رہتا ہے منور آفتاب
دن سے بڑھ کر اپنی گرمی شب کو دکھلاتی ہے دھوپ
دل خوشی سے جھومتا ہے جب سر دیوار یار
نیم وا در سے گزر کر سرد بن جاتی ہے دھوپ
رات پہلو میں اچانک اس کا چہرہ دیکھ کر
دل میں یہ آیا تصور کتنی لمحاتی ہے دھوپ
برق کے دم سے تھی کل جس خواب گہ میں موج نور
اب وہاں بھی طرز نو سے جلوہ دکھلاتی ہے دھوپ
اے سہیلؔ اس میں نہاں ہے اس کی محبوبی کا راز
طبع موسم دیکھ کر فوراً بدل جاتی ہے دھوپ
غزل
کس کی خلوت سے نکھر کر صبح دم آتی ہے دھوپ
ادیب خلوت