EN हिंदी
کس کی آنکھوں کی ہدایت سے مجھے دیکھتا ہے | شیح شیری
kis ki aankhon ki hidayat se mujhe dekhta hai

غزل

کس کی آنکھوں کی ہدایت سے مجھے دیکھتا ہے

راشد طراز

;

کس کی آنکھوں کی ہدایت سے مجھے دیکھتا ہے
آئینہ اپنی فراست سے مجھے دیکھتا ہے

جب سے اترے ہیں مرے دل پہ یہ آلام زمیں
آسماں جھک کے رفاقت سے مجھے دیکھتا ہے

میں گنہ گار ہوں آنکھوں میں ابھی تک اپنی
جانے وہ کس کی نیابت سے مجھے دیکھتا ہے

مائل رقص نہیں پاؤں میں زنجیر نہیں
پھر بھی زنداں ہے کہ وحشت سے مجھے دیکھتا ہے

ایک دن ڈالی تھی بنیاد مشقت کی یہاں
اب یہ صحرا بھی محبت سے مجھے دیکھتا ہے

دل کی آواز پہ نکلا تھا بغاوت کے لئے
شہر کا شہر حمایت سے مجھے دیکھتا ہے

روشنی چھائی ہوئی رہتی ہے اب مجھ پہ طرازؔ
کوئی تو ہے جو عنایت سے مجھے دیکھتا ہے