کس کے خیال نے مجھے شوریدہ کر دیا
تنہا شبی کو اور بھی سنجیدہ کر دیا
احساس نارسائی کی بنجر زمین کو
کس کے خیال سبز نے بالیدہ کر دیا
کل ہم نے طشت بام پہ شب خون مار کر
بستر اچٹتی نیند کا خوابیدہ کر دیا
بیتے غموں کو آج کی تلخی میں گھول کر
مستقبل حیات کو لغزیدہ کر دیا
ہر روز کی نئی نئی ایجاد نے حنیفؔ
ہر معدن قدیم کو ژولیدہ کر دیا

غزل
کس کے خیال نے مجھے شوریدہ کر دیا
حنیف ترین