EN हिंदी
کس کے خیال نے مجھے شوریدہ کر دیا | شیح شیری
kis ke KHayal ne mujhe shorida kar diya

غزل

کس کے خیال نے مجھے شوریدہ کر دیا

حنیف ترین

;

کس کے خیال نے مجھے شوریدہ کر دیا
تنہا شبی کو اور بھی سنجیدہ کر دیا

احساس نارسائی کی بنجر زمین کو
کس کے خیال سبز نے بالیدہ کر دیا

کل ہم نے طشت بام پہ شب خون مار کر
بستر اچٹتی نیند کا خوابیدہ کر دیا

بیتے غموں کو آج کی تلخی میں گھول کر
مستقبل حیات کو لغزیدہ کر دیا

ہر روز کی نئی نئی ایجاد نے حنیفؔ
ہر معدن قدیم کو ژولیدہ کر دیا