EN हिंदी
کس کا شعلہ جل رہا ہے شعلگی سے ماورا | شیح شیری
kis ka shoala jal raha hai shoalagi se mawara

غزل

کس کا شعلہ جل رہا ہے شعلگی سے ماورا

احمد ہمیش

;

کس کا شعلہ جل رہا ہے شعلگی سے ماورا
کون روشن ہے بھلا اس روشنی سے ماورا

جیتے جی تو کچھ نہیں دیکھا نظر سے ہاں مگر
حیرتیں ڈھونڈا کیے اس حیرتی سے ماورا

کون سا عالم ہے مالک تیرے عالم میں نہاں
کون سجدے میں چھپا ہے بندگی سے ماورا

کوئی تو بتلائے گا آگے کہاں مڑتی ہے راہ
کوئی تو ہوگی زمیں اس ملگجی سے ماورا

بات جینے کی ادا تک خوبصورت ہے مگر
زندگی کچھ اور ہے اس زندگی سے ماورا

خاک بستہ پھر رہا ہے کون سی بستی میں دل
کون آخر خستہ جاں ہے خستگی سے ماورا

اک نگر ترسا ہوا ہے اور صحرا ہے طویل
اور اک ندی ہے کوئی تشنگی سے ماورا

کب سے خالی ہاتھ ہے یاں ایک خلقت عشق کی
ہم بھی ہو جائیں گے ایک دن بے بسی سے ماورا

ان فراواں نعمتوں اور برکتوں کے باوجود
کوئی مفلس چل دیا ہے مفلسی سے ماورا

اپنی دنیا میں اگر پھیلی ہے تاریکی تو کیا
دن کہیں نکلا تو ہوگا تیرگی سے ماورا