EN हिंदी
کس کا لب پر مرے فسانا ہے | شیح شیری
kis ka lab par mere fasana hai

غزل

کس کا لب پر مرے فسانا ہے

جگر جالندھری

;

کس کا لب پر مرے فسانا ہے
ہمہ تن گوش اک زمانہ ہے

زندگی ایک خواب ہے لیکن
اس حقیقت کو کس نے جانا ہے

کس طرح غم کو چھوڑ دوں یک لخت
اس سے رشتہ بہت پرانا ہے

اور تھوڑی سی کیجیئے تکلیف
دو قدم پر غریب خانہ ہے

آپ کو لوٹنے کی دیر ہے بس
عمر رفتہ کو لوٹ آنا ہے

زندگی تجھ سے کیا میں پیار کروں
چال تیری مسافرانہ ہے

روبرو دل کے ہے وہ شوخ نظر
برق کی زد میں آشیانا ہے

ہے تمنا کسی سے ملنے کی
موت تو اے جگرؔ بہانا ہے