کس حسیں خواب کا فسانہ ہے
زندگی درد کا ترانہ ہے
سب کہ نظروں میں وو دوانہ ہے
جس کا انداز شاعرانہ ہے
موت ہی زندگی کی منزل ہے
زندگی موت کا بہانہ ہے
مفلسوں کا بھی اور شاہوں کا
قبر ہی آخری ٹھکانہ ہے
زندگی ہے کوئی حسیں محبوب
جس کا انداز قاتلانہ ہے
مر چکی ہے یہ وصل کی حسرت
تیری یادوں سے دل لگانا ہے
گھڑکیوں اور گالیوں کے سوا
کیا غریبوں کا محنتانہ ہے
مر گیا ہے ضمیر لوگوں کا
یہ زمانہ بھی کیا زمانہ ہے
تو مجھے مت قبول کر لیکن
تجھ سے رشتہ مرا پرانا ہے
بعد مرنے کے قبر میں عارفؔ
کون اپنا ہے اور بیگانہ ہے

غزل
کس حسیں خواب کا فسانہ ہے
سید محمد عسکری عارف