کس برج میں فلک نے ستارے ملائے ہیں
دست شب فراق میں سائے ہی سائے ہیں
گلزار زندگی کے ہیں گلدان کے نہیں
یہ پھول کار خانۂ قدرت سے آئے ہیں
خستہ ہوئے تنے تو جڑیں پھوٹنے لگیں
پیڑوں نے اپنے اپنے بدن پھر اگائے ہیں
سامان بود و باش تھا جنگل سے شہر تک
ہم اپنا بوجھ نفس کے گھوڑوں پہ لائے ہیں
دنیا میں اتنے شور شرابے کے باوجود
جو بولتے نہیں ہیں وہی اہل رائے ہیں
ہم سرپھروں کا ذوق سکونت نہ پوچھیے
جب شہر تنگ ہو گئے صحرا بسائے ہیں
لگتا ہے اپنا ذہن بھی اپنا نہیں نسیمؔ
خود ساختہ خیال بھی جیسے پرائے ہیں

غزل
کس برج میں فلک نے ستارے ملائے ہیں
نسیم عباسی