EN हिंदी
کس بھروسے پہ نکلتا گھر سے باہر میں اکیلا | شیح شیری
kis bharose pe nikalta ghar se bahar main akela

غزل

کس بھروسے پہ نکلتا گھر سے باہر میں اکیلا

نثار ناسک

;

کس بھروسے پہ نکلتا گھر سے باہر میں اکیلا
چار سو اٹھے ہوئے ہاتھوں میں پتھر میں اکیلا

مصلحت زادوں کی ناؤ ساحلوں پر جا لگی ہے
رہ گیا سیلاب میں پسر پیمبر میں اکیلا

میرے پرچم پر مری رسوائی کی تحریر ہے
دشمنوں سے جا ملا ہے میرا لشکر میں اکیلا

میں یہ کس کوئے‌ ہراساں میں ہوں تصویر سوال
سب کھڑے ہیں اپنے ہی سایوں سے لگ کر میں اکیلا

صحن میں آہٹ ہے کوئی اور نہ چھت پر چاپ ہے
شام ہے اور بے دلی کی سیڑھیوں پر میں اکیلا

مجھ سے باہر زندگی آزادیاں آبادیاں
اور اس تاریک سے کمرے کے اندر میں اکیلا

سب کے اعمالوں کی ناسکؔ لگ چکی ہیں قیمتیں
رہ گیا ہوں اب سر بازار‌ محشر میں اکیلا