کردار کہہ رہے ہیں کچھ اپنی زبان میں
کتنی کہانیاں ہیں اسی داستان میں
جب آج تک نہ بات مکمل ہوئی کوئی
یہ لوگ بولنے لگے کیوں درمیان میں
برسوں میں کٹ رہا ہے یہاں عرصۂ حیات
صدیاں گزر رہی ہیں کہیں ایک آن میں
اس دن کے بعد سوچنا محدود کر دیا
ایسا خیال ایک دن آیا تھا دھیان میں
ہونے کی انتہا ہے وہی آج تک ملالؔ
جو ابتدا میں ہو گیا اس خاکدان میں

غزل
کردار کہہ رہے ہیں کچھ اپنی زبان میں
صغیر ملال