کن دشمنوں کا تیر بنایا گیا ہوں میں
اپنے ہی جسم و جاں میں اتارا گیا ہوں میں
جو سب سے کٹ چکا ہوں تو حیرت کی بات کیا
اب اپنے ساتھ بھی کہاں پایا گیا ہوں میں
اک عمر تک تو میں بھی زمانے کے ساتھ تھا
کچھ بات ہے جو لوٹ کے گھر آ گیا ہوں میں
وہ ماہ وش سنا ہے کہ گزرے گا اس طرف
اک کہکشاں سی راہ میں بکھرا گیا ہوں میں
خود اپنے آپ سے بھی کہاں تھا میں مطمئن
اب جو زمانے تجھ کو بھی راس آ گیا ہوں میں
اک سانحہ سا دفن ہوں لیکن کبھی کبھی
صدیوں کی قبر سے بھی اٹھایا گیا ہوں میں
اب کس طرح میں اپنے لبوں کو سمیٹ لوں
کن آندھیوں کی زد پہ چلایا گیا ہوں میں

غزل
کن دشمنوں کا تیر بنایا گیا ہوں میں
نعمان امام