کیجیے اور سوالات نہ ذاتی مجھ سے
اتنی شہرت بھی سنبھالی نہیں جاتی مجھ سے
نام اشیا کے بتائے مگر اے حکمت غیب
کاش تو میری حقیقت نہ چھپاتی مجھ سے
دل شکن عہد شکن صبر شکن قدر شکن
پوچھ لے اپنے سب القاب صفاتی مجھ سے
ہار جاتا میں خوشی سے کہ وفا کا تھا سوال
جیت جاتی وہ اگر شرط لگاتی مجھ سے
غزل
کیجیے اور سوالات نہ ذاتی مجھ سے
شبنم رومانی