کی جستجو تو ایک نیا گھر ملا مجھے
برسوں کے بعد میرا مقدر ملا مجھے
جب تشنگی بڑھی تو مسیحا نہ تھا کوئی
جب پیاس بجھ گئی تو سمندر ملا مجھے
دنیا مرے خلاف نبرد آزما رہی
لیکن وہ ایک شخص برابر ملا مجھے
زخم نگاہ زخم ہنر زخم دل کے بعد
اک اور زخم تجھ سے بچھڑ کر ملا مجھے
نازک خیالیوں کی مجھے یہ سزا ملی
شیشہ تراشنے کو بھی پتھر ملا مجھے
غزل
کی جستجو تو ایک نیا گھر ملا مجھے
اختر سعیدی