کہ جیسے کنج چمن سے صبا نکلتی ہے
ترے لیے میرے دل سے دعا نکلتی ہے
قدم بڑھاؤں تری رہ گزار ہے آخر
مگر یہ راہ کہیں اور جا نکلتی ہے
یہیں کہیں پہ ہے رستہ دوام وصل کا بھی
یہیں کہیں سے ہی راہ فنا نکلتی ہے
ضرور ہوتا ہے رنج سفر مسافت میں
کہ جیسے چلنے سے آواز پا نکلتی ہے
یہاں وہاں کسی چہرے میں ڈھونڈتے ہیں تمہیں
ہمارے ملنے کی صورت بھی کیا نکلتی ہے
ہر ایک آنکھ میں ہوتی ہے منتظر کوئی آنکھ
ہر ایک دل میں کہیں کچھ جگہ نکلتی ہے
جو ہو سکے تو سنو زخمۂ خموشی کو
کہ اس سے کھوے ہوؤں کی صدا نکلتی ہے
ہم اپنی راہ پکڑتے ہیں دیکھتے بھی نہیں
کہ کس ڈگر پہ یہ خلق خدا نکلتی ہے
غزل
کہ جیسے کنج چمن سے صبا نکلتی ہے
ابرار احمد