خیال بد سے ہمہ وقت اجتناب کرو
فضائے شہر کو دانستہ مت خراب کرو
جہاں میں آئے ہو دو دن کی زندگی لے کر
ہر اک محاذ پہ تم اس کو کامیاب کرو
تمام شہر ہے ڈوبا ہوا اندھیرے میں
تم اپنے چاند سے چہرے کو بے نقاب کرو
ادھر خلوص ادھر بغض اور نفرت ہے
عزیز کیا ہے تمہیں اس کا انتخاب کرو
جو تم نے مجھ کو دیا اور میں نے تم کو دیا
تم اس کا بیٹھ کے چوپال میں حساب کرو
حجاب عظمت انسانیت کا ضامن ہے
رہو کہیں بھی پہ پابندئ حجاب کرو
اگر وطن سے محبت ہے تم کو اے عبرتؔ
تو پیدا عزم سے تم سبز انقلاب کرو
غزل
خیال بد سے ہمہ وقت اجتناب کرو
عبرت بہرائچی