خواہشوں کو سر پہ لادے یوں سفر کرنے لگے
لوگ اپنی ذات کو زیر و زبر کرنے لگے
اس جنوں کا اس سے بہتر اور کیا ہوگا صلہ
ہم خود اپنے خون سے دامن کو تر کرنے لگے
دھوپ میں جلتے رہے ہیں سرو کی صورت مگر
یہ غضب ہے چاند پر پھر بھی نظر کرنے لگے
دوستوں نے تحفتاً بخشے جو زخموں کے گلاب
ان کی بو محسوس ہم آٹھوں پہر کرنے لگے
یوں بدن میں خون کو عزم سفر کا ہو جنوں
دل کے دریا میں وہ پھر پیدا بھنور کرنے لگے
ریزہ ریزہ ہو نہ جائیں عکس شیشوں کے کبھی
اب تلاش سنگ خود ہی شیشہ گر کرنے لگے
پھول پتوں کا انہیں پھر ہوش کیا باقی رہے
جن درختوں کو ہوا زیر و زبر کرنے لگے
زندگی ہے بوجھ گر خود کو بدل کچھ اس طرح
زندگی تیرے لئے خود ہی سفر کرنے لگے
بڑھ گیا ہے اس قدر احساس محرومی شکیبؔ
لوگ اپنی ذات سے کٹ کر گزر کرنے لگے

غزل
خواہشوں کو سر پہ لادے یوں سفر کرنے لگے
راغب شکیب