EN हिंदी
خواہش کو اپنے درد کے اندر سمیٹ لے | شیح شیری
KHwahish ko apne dard ke andar sameT le

غزل

خواہش کو اپنے درد کے اندر سمیٹ لے

سلیم شاہد

;

خواہش کو اپنے درد کے اندر سمیٹ لے
پرداز بار دوش ہے تو پر سمیٹ لے

اپنی طلب کو غیر کی دہلیز پر نہ ڈال
وہ ہاتھ کھنچ گیا ہے تو چادر سمیٹ لے

سرخی طلوع صبح کی لوح افق پہ لکھ
سارے بدن کا خون جبیں پر سمیٹ لے

یکجا نہیں کتاب ہنر کے ورق ہنوز
ایام حرف حرف کا دفتر سمیٹ لے

جو پیڑ ہل چکے ہیں انہیں آندھیوں پہ چھوڑ
شاید ہوا یہ راہ کے پتھر سمیٹ لے

زندہ لہو تو شہر کی گلیوں میں ہے رواں
شاہدؔ رگوں میں کون یہ محشر سمیٹ لے