خواہ پتھر خواہ شیشہ آدمی
ریزہ ریزہ ہو کے بکھرا آدمی
لمحہ لمحہ دھوپ سے تپ کر ہوا
دشت غربت میں سنہرا آدمی
اک نئی تخلیق کا سورج لیے
فکر کے زینے سے اترا آدمی
زندگی کے آئینے میں روز و شب
دیکھتا ہے اپنا چہرا آدمی
بھر کے آنکھوں میں سلگتی آرزو
برف کی وادی سے گزرا آدمی
عمر بھر کرتا نہیں فاش اپنا راز
کس قدر ہوتا ہے گہرا آدمی
ساعت ایسی بھی کبھی آتی ہے نازؔ
خود بھی بن جاتا ہے بہرا آدمی
غزل
خواہ پتھر خواہ شیشہ آدمی
ناز قادری