EN हिंदी
خواہ مفلسی سے نکل گیا یا تونگری سے نکل گیا | شیح شیری
KHwah muflisi se nikal gaya ya tawangari se nikal gaya

غزل

خواہ مفلسی سے نکل گیا یا تونگری سے نکل گیا

شاد بلگوی

;

خواہ مفلسی سے نکل گیا یا تونگری سے نکل گیا
وہی وقت اصل حیات تھا جو ہنسی خوشی سے نکل گیا

اسے بھول جاؤں یہ کہہ کے میں وہ مرا نہیں تھا نہیں نہیں
مجھے دے کے جو نئی زندگی مری زندگی سے نکل گیا

کسے اپنا کہہ کے پکاریے کسے دل کے گھر میں اتارئیے
وہ جو پیار نام کا وصف تھا خوئے آدمی سے نکل گیا

جو لگے سمیٹنے مال دھن تو سمیٹتے ہی چلے گئے
یہیں چھوڑ جائیں گے سب کا سب یہ دماغ ہی سے نکل گیا

کہیں باہر اپنے وجود کے نہ ہے جوت کوئی نہ نور ہے
جسے اپنے دل میں ضیا ملی وہی تیرگی سے نکل گیا

سبھی اک مقام پہ جا ملے ہاں بس ایک فرق ضرور تھا
کوئی اس گلی سے نکل گیا کوئی اس گلی سے نکل گیا

یہاں جس کسی نے بھی سچ کہا اسے موت تک کی ملی سزا
یہ تو شادؔ تیرا نصیب تھا تو بھلی بری سے نکل گیا