EN हिंदी
خواہ کر انصاف ظالم خواہ کر بیداد تو | شیح شیری
KHwah kar insaf zalim KHwah kar bedad tu

غزل

خواہ کر انصاف ظالم خواہ کر بیداد تو

بہادر شاہ ظفر

;

خواہ کر انصاف ظالم خواہ کر بیداد تو
پر جو فریادی ہیں ان کی سن تو لے فریاد تو

دم بدم بھرتے ہیں ہم تیری ہوا خواہی کا دم
کر نہ بد خوؤں کے کہنے سے ہمیں برباد تو

کیا گنہ کیا جرم کیا تقصیر میری کیا خطا
بن گیا جو اس طرح حق میں مرے جلاد تو

قید سے تیری کہاں جائیں گے ہم بے بال و پر
کیوں قفس میں تنگ کرتا ہے ہمیں صیاد تو

دل کو دل سے راہ ہے تو جس طرح سے ہم تجھے
یاد کرتے ہیں کرے یوں ہی ہمیں بھی یاد تو

دل ترا فولاد ہو تو آپ ہو آئینہ وار
صاف یک باری سنے میری اگر روداد تو

شاد و خرم ایک عالم کو کیا اس نے ظفرؔ
پر سبب کیا ہے کہ ہے رنجیدہ و ناشاد تو