EN हिंदी
خوابوں سے نہ جاؤ کہ ابھی رات بہت ہے | شیح شیری
KHwabon se na jao ki abhi raat bahut hai

غزل

خوابوں سے نہ جاؤ کہ ابھی رات بہت ہے

صابر دت

;

خوابوں سے نہ جاؤ کہ ابھی رات بہت ہے
پہلو میں تم آؤ کہ ابھی رات بہت ہے

جی بھر کے تمہیں دیکھ لوں تسکین ہو کچھ تو
مت شمع بجھاؤ کہ ابھی رات بہت ہے

کب پو پھٹے کب رات کٹے کون یہ جانے
مت چھوڑ کے جاؤ کہ ابھی رات بہت ہے

رہنے دو ابھی چاند سا چہرہ مرے آگے
مے اور پلاؤ کہ ابھی رات بہت ہے

کٹ جائے یوں ہی پیار کی باتوں میں ہر اک پل
کچھ جاگو جگاؤ کہ ابھی رات بہت ہے