خوابوں سے نہ جاؤ کہ ابھی رات بہت ہے
پہلو میں تم آؤ کہ ابھی رات بہت ہے
جی بھر کے تمہیں دیکھ لوں تسکین ہو کچھ تو
مت شمع بجھاؤ کہ ابھی رات بہت ہے
کب پو پھٹے کب رات کٹے کون یہ جانے
مت چھوڑ کے جاؤ کہ ابھی رات بہت ہے
رہنے دو ابھی چاند سا چہرہ مرے آگے
مے اور پلاؤ کہ ابھی رات بہت ہے
کٹ جائے یوں ہی پیار کی باتوں میں ہر اک پل
کچھ جاگو جگاؤ کہ ابھی رات بہت ہے
غزل
خوابوں سے نہ جاؤ کہ ابھی رات بہت ہے
صابر دت