خوابوں کی طرح گویا بکھر جائیں گے ہم بھی
چپ چاپ کسی روز گزر جائیں گے ہم بھی
ہم جیسے کئی لوگ چلے جاتے ہیں ہر روز
کیا ہوگا کسی روز جو مر جائیں گے ہم بھی
ہم لوگ نہیں کچھ بھی مگر لوح زماں پر
اک نقش کوئی اپنا سا دھر جائیں گے ہم بھی
اوڑھے ہوئے ہیں روح پہ ہم داغوں بھری خاک
جب اترے گی یہ خاک نکھر جائیں گے ہم بھی
اک آئنہ ایسا کہ جو باطن بھی دکھا دے
آئے گا مقابل تو سنور جائیں گے ہم بھی
رہنا ہے کسے خواب سی دنیا میں ہمیشہ
کاشفؔ کسی دن لوٹ کے گھر جائیں گے ہم بھی
غزل
خوابوں کی طرح گویا بکھر جائیں گے ہم بھی
کاشف رفیق