خوابوں کے محل ٹوٹ کے گر جاتے ہیں اکثر
پھر ان سے ہی دن اپنے سنور جاتے ہیں اکثر
اے باد صبا ان کو یہ پیغام مرا دے
کیوں چھپ کے مری رہ سے گزر جاتے ہیں اکثر
دنیا میں ہر اک شے ہے فقط تیری کمی ہے
نقشے تری یادوں کے ابھر جاتے ہیں اکثر
وہ ناز اٹھانے کے تو قائل ہی نہیں ہیں
پھر ہم بھی خفا ہو کے بپھر جاتے ہیں اکثر
کوثرؔ ترے مے خانے میں ساغر نہ سبو ہے
پھر کیوں یہاں مے نوش ٹھہر جاتے ہیں اکثر

غزل
خوابوں کے محل ٹوٹ کے گر جاتے ہیں اکثر
ناہید کوثر