خوابوں کے آسرے پہ بہت دن جیے ہو تم
شاید یہی سبب ہے کہ تنہا رہے ہو تم
اپنے سے کوئی بات چھپائی نہیں کبھی
یہ بھی فریب خود کو بہت دے چکے ہو تم
پوچھا ہے اپنے آپ سے میں نے ہزار بار
مجھ کو بتاؤ تو سہی کیا چاہتے ہو تم
خالی برآمدوں نے مجھے دیکھ کر کہا
کیا بات ہے اداس سے کچھ لگ رہے ہو تم
گھر کے لبوں پہ آج تک آیا نہ یہ سوال
ہو کر کہاں سے آئے ہو کیا تھک گئے ہو تم

غزل
خوابوں کے آسرے پہ بہت دن جیے ہو تم
سلمان اختر