EN हिंदी
خوابوں کا نشہ ہے نہ تمنا کا سلسلہ | شیح شیری
KHwabon ka nashsha hai na tamanna ka silsila

غزل

خوابوں کا نشہ ہے نہ تمنا کا سلسلہ

ابو محمد سحر

;

خوابوں کا نشہ ہے نہ تمنا کا سلسلہ
اب رہ گیا ہے بس غم دنیا کا سلسلہ

آباد دور دور ہیں ویراں سے کچھ مقام
یہ بستیاں ہیں یا کوئی صحرا کا سلسلہ

گردش میں جان و دل ہوں تو کیوں کر ملے سکوں
یارو نہیں یہ ساغر و مینا کا سلسلہ

دو ہی قدم چلے تھے کسی کی تلاش میں
پھر مل سکا نہ نقش کف پا کا سلسلہ

انساں کو سلسلوں سے ملے گی نجات کیا
دنیا کے بعد ہے ابھی عقبیٰ کا سلسلہ

اپنے وجود سے بھی گلے پر ہوا تمام
اتنا بڑھا شکایت بے جا کا سلسلہ

اک شہر تشنہ کام میں جیتے ہیں یوں سحرؔ
آتا ہے روز خواب میں دریا کا سلسلہ