خوابوں کا نشہ ہے نہ تمنا کا سلسلہ
اب رہ گیا ہے بس غم دنیا کا سلسلہ
آباد دور دور ہیں ویراں سے کچھ مقام
یہ بستیاں ہیں یا کوئی صحرا کا سلسلہ
گردش میں جان و دل ہوں تو کیوں کر ملے سکوں
یارو نہیں یہ ساغر و مینا کا سلسلہ
دو ہی قدم چلے تھے کسی کی تلاش میں
پھر مل سکا نہ نقش کف پا کا سلسلہ
انساں کو سلسلوں سے ملے گی نجات کیا
دنیا کے بعد ہے ابھی عقبیٰ کا سلسلہ
اپنے وجود سے بھی گلے پر ہوا تمام
اتنا بڑھا شکایت بے جا کا سلسلہ
اک شہر تشنہ کام میں جیتے ہیں یوں سحرؔ
آتا ہے روز خواب میں دریا کا سلسلہ
غزل
خوابوں کا نشہ ہے نہ تمنا کا سلسلہ
ابو محمد سحر