خواب اس کا تو حقیقت سے زیادہ ہے بہت
میری الجھن بھی محبت سے زیادہ ہے بہت
اس کی سانسوں سے مہک اٹھتے ہیں کتنے ہی گلاب
لمس اس کا مجھے دولت سے زیادہ ہے بہت
سرخ آنکھوں میں چھپا رکھی ہے میں نے تری یاد
شوق دنیا مری ہمت سے زیادہ ہے بہت
مری خواہش ہے کہ میں خود سے ملاقات کروں
اور یہ خواہش مری حسرت سے زیادہ ہے بہت
نہیں ملتی تجھے منزل تو شکایت کیسی
یہ بھٹکنا تری غفلت سے زیادہ ہے بہت
غزل
خواب اس کا تو حقیقت سے زیادہ ہے بہت
محمد اظہر شمس