EN हिंदी
خواب تعبیر کے اسیر نہ تھے | شیح شیری
KHwab tabir ke asir na the

غزل

خواب تعبیر کے اسیر نہ تھے

پیغام آفاقی

;

خواب تعبیر کے اسیر نہ تھے
رہ گزر تھے یہ راہگیر نہ تھے

رہنما تھے کبھی وہ سچ ہے مگر
یہ بھی سچ ہے کہ میرے پیر نہ تھے

ہم نے زنداں کی باغبانی کی
موسم گل کے ہم اسیر نہ تھے

پتھر آئے تھے آئینے بن کے
ورنہ ہم اتنے بے ضمیر نہ تھے

اپنا انداز زیست ہے پیغامؔ
یہ تماشے تھے ناگزیر نہ تھے