خواب تعبیر کے اسیر نہ تھے
رہ گزر تھے یہ راہگیر نہ تھے
رہنما تھے کبھی وہ سچ ہے مگر
یہ بھی سچ ہے کہ میرے پیر نہ تھے
ہم نے زنداں کی باغبانی کی
موسم گل کے ہم اسیر نہ تھے
پتھر آئے تھے آئینے بن کے
ورنہ ہم اتنے بے ضمیر نہ تھے
اپنا انداز زیست ہے پیغامؔ
یہ تماشے تھے ناگزیر نہ تھے
غزل
خواب تعبیر کے اسیر نہ تھے
پیغام آفاقی