خواب سننے سے گئے عشق بتانے سے گئے
زندگی ہم تری توقیر بڑھانے سے گئے
گھر کے آنگن میں لگا پیڑ کٹا ہے جب سے
ہم تری بات پرندوں کو سنانے سے گئے
جز تجھے دیکھنے کے اور نہیں تھا کوئی کام
یہ الگ بات کسی اور بہانے سے گئے
جب سے وحشت نے نئی شکل نکالی اپنی
ہم جنوں زاد کسی دشت میں جانے سے گئے
وقت پر اس نے پہنچنے کا کہلوایا تھا
ہم ہی تاخیر سے پہنچے سو ٹھکانے سے گئے
آسماں روز مرے خواب میں آ جاتا ہے
ہم خیالوں میں حسیں چاند بنانے سے گئے
دل کی تنہائی میں وحشت کی دراڑیں ہیں سعیدؔ
ہم دراڑوں میں ترا ہجر بسانے سے گئے
غزل
خواب سننے سے گئے عشق بتانے سے گئے
مبشر سعید