خواب ستارے ہوتے ہوں گے لیکن آنکھیں ریت
دن دریاؤں کے ہمجولی ہیں اور راتیں ریت
ایک فقیر نے میری جانب دیکھا اور پھر میں
مٹی کی ڈھیری کی صورت تھا اور سانسیں ریت
میں سرسبز جزیرے جیسا تھا پر دشت ہوا
اس نے مجھ سے اتنا کہا تھا تیری باتیں ریت
موتی ٹوٹنے لگتے ہیں جب پتھر بات کریں
آئینوں کو دکھ ہوتا ہے جب ہم بولیں ریت
کبھی کبھی جی چاہتا ہے کہ تنہا کمرے میں
ہم کاغذ پر اشک بنائیں اور پھر لکھیں ریت
زاہدؔ رات کی خاموشی میں کوئی کہتا ہے
دانش وانش عقلیں وقلیں سوچیں ووچیں ریت
غزل
خواب ستارے ہوتے ہوں گے لیکن آنکھیں ریت
زاہد شمسی