خواب و خیال گل سے کدھر جائے آدمی
اک گلشن ہوا ہے جدھر جائے آدمی
دیکھے ہوئے سے لگتے ہیں رستے مکاں مکیں
جس شہر میں بھٹک کے جدھر جائے آدمی
دیکھے ہیں وہ نگر کہ ابھی تک ہوں خوف میں
وہ صورتیں ملی ہیں کہ ڈر جائے آدمی
یہ بحر ہست و بود ہے بے گوہر مراد
گہرائیوں میں اس کی اگر جائے آدمی
پردے میں رنگ و بو کے سفر در سفر منیرؔ
ان منزلوں سے کیسے گزر جائے آدمی
غزل
خواب و خیال گل سے کدھر جائے آدمی
منیر نیازی