خواب نہیں ہے سناٹا ہے لیکن ہے تعبیر بہت
سچی باتیں کم کم ہیں اور جھوٹ کی ہے تشہیر بہت
کیا کیا چہرے ہیں آنکھوں میں شکلیں کیا کیا ذہن میں ہیں
یادیں گویا البم ہیں اور البم میں تصویر بہت
قصہ ہے بس دو پل کا یہ ملنے اور بچھڑنے کا
کرنے والے عشق کی یوں تو کرتے ہیں تفسیر بہت
ہم تو صاحب اہل جنوں ہیں دنیا کھیل تماشا ہے
اہل خرد کی خاطر ہوگی دنیا کی زنجیر بہت
ساری شکلیں دھندلی دھندلی مبہم سا ہے منظر بھی
خواب کی کچی بنیادوں پر کرنی ہے تعمیر بہت
قصہ یہ محدود نہ تھا کچھ ہونٹوں کی خاموشی تک
کہنے کو تو کہتی تھی ان آنکھوں کی تحریر بہت
غزل
خواب نہیں ہے سناٹا ہے لیکن ہے تعبیر بہت
قمر صدیقی