خواب نگر کے شہزادے نے ایسے بھی نروان لیا
چاند سجایا آنکھوں میں اور رات کو سر پر تان لیا
دنیا داری کھیل تماشہ عشق و محبت راحت جاں
آگ میں اپنی جل کر ہم نے بن برگد یہ گیان لیا
وہ آنکھیں ہی ایسی تھیں ہم ڈوب گئے انجانے میں
جان کے کس نے ٹوٹی پھوٹی کشتی میں طوفان لیا
کون سا پردا ہم سے تھا تم دل کی باتیں کہہ سکتے تھے
مفت میں تم نے بات بڑھائی غیروں کا احسان لیا
حرص و ہوس کا دور ہے اس میں بکتے ہیں سب رشتے ناطے
جان پہ اپنی کیوں کر تم نے اوروں کا بہتان لیا
واقف کب تھا پیار سے پہلے لیکن ذاکرؔ پیار کے بعد
قسمت ریکھا حسن و ادا اور ناز و جفا سب جان لیا

غزل
خواب نگر کے شہزادے نے ایسے بھی نروان لیا
ذاکر خان ذاکر