خواب میں تیری شکل سمو نہیں سکتا میں
اسی لیے تو شاید سو نہیں سکتا میں
میں تو اپنے آنسوؤں سے شرمندہ ہوں
تیری آنکھ کے آنسو رو نہیں سکتا میں
حد نظر تک ریت ہی ریت ہے آنکھوں میں
اب اس ریت میں پھول تو بو نہیں سکتا میں
میں بھی تیرے جیسا ہونا چاہتا ہوں
لیکن اب دریا تو ہو نہیں سکتا میں
دل پر تیری چپ سے لگنے والا داغ
ایسا داغ ہے جس کو دھو نہیں سکتا میں
غزل
خواب میں تیری شکل سمو نہیں سکتا میں
نوید رضا