خواب میں نور برسنے کا سماں ہوتا ہے
آنکھ کھلتی ہے تو کمرے میں دھواں ہوتا ہے
دھوپ ایسی در و دیوار پہ ٹھہری آ کر
گھر پہ آسیب کے سائے کا گماں ہوتا ہے
خواب میں جا کے اسے دیکھ تو آؤں لیکن
اب وہ آنکھوں کے دریچوں میں کہاں ہوتا ہے
دن کو ہوتی ہے جو لوگوں کے گزرنے کی جگہ
شام کے بعد وہاں میرا مکاں ہوتا ہے
خوف انجانا کوئی پیچھے پڑا ہے ایسے
جس جگہ جاتا ہوں کم بخت وہاں ہوتا ہے
یوں مرے آگے ابھر آتا ہے وہ شخص حسنؔ
میرے اندر ہی کہیں جیسے نہاں ہوتا ہے
غزل
خواب میں نور برسنے کا سماں ہوتا ہے
حسن عباسی