خواب میں گر کوئی کمی ہوتی
آنکھ مدت سے کھل چکی ہوتی
تم سمندر میں کس لئے کودے
آگ تو یوں بھی بجھ گئی ہوتی
وہ تو دریا اتر گیا ورنہ
جانے بستی پہ کیا بنی ہوتی
وہ صدا رات کو جو آتی تھی
جاگتے رہتے تو سنی ہوتی
دے رہی ہے مرے بدن کو دعائیں
رات اکیلی ٹھٹھر گئی ہوتی
ان گنت رنگ تھے نگاہوں میں
کوئی تصویر تو بنی ہوتی
تم یوں ہی سوچتے رہے عابدؔ
عمر یوں بھی گزر گئی ہوتی
غزل
خواب میں گر کوئی کمی ہوتی
عابد عالمی