EN हिंदी
خواب محل میں کون سر شام آ کر پتھر مارتا ہے | شیح شیری
KHwab-mahal mein kaun sar-e-sham aa kar patthar marta hai

غزل

خواب محل میں کون سر شام آ کر پتھر مارتا ہے

اختر ہوشیارپوری

;

خواب محل میں کون سر شام آ کر پتھر مارتا ہے
روز اک تازہ کانچ کا برتن ہاتھ سے گر کر ٹوٹتا ہے

مکڑی نے دروازے پہ جالے دور تلک بن رکھے ہیں
پھر بھی کوئی گزرے دنوں کی اوٹ سے اندر جھانکتا ہے

شور سا اٹھتا رہتا ہے دیواریں بولتی رہتی ہیں
شام ابھی تک آ نہیں پاتی کوئی کھلونے توڑتا ہے

اول شب کی لوری بھی کب کام کسی کے آتی ہے
دل وہ بچہ اپنی صدا پر کچی نیند سے جاگتا ہے

اندر باہر کی آوازیں اک نقطے پر سمٹی ہیں
ہوتا ہے گلیوں میں واویلا میرا لہو جب بولتا ہے

میری سانسوں کی لرزش منظر کا حصہ بنتی ہے
دیکھتا ہوں میں کھڑکی سے جب شاخ پہ پتہ کانپتا ہے

میرے سرہانے کوئی بیٹھا ڈھارس دیتا رہتا ہے
نبض پہ ہاتھ بھی رکھتا ہے ٹوٹے دھاگے بھی جوڑتا ہے

بادل اٹھے یا کہ نہ اٹھے بارش بھی ہو یا کہ نہ ہو
میں جب بھیگنے لگتا ہوں وہ سر پر چھتری تانتا ہے

وقت گزرنے کے ہمراہ بہت کچھ سیکھا اخترؔ نے
ننگے بدن کو کرنوں کے پیراہن سے اب ڈھانپتا ہے